Friday 1 April 2022

"पंजाबी ट्रिब्यून" और पंजाबी साहित्यिक पत्रिका "प्रतिमान" में प्रकाशित लक्ष्मीकांत मुकुल की पंजाबी भाषा में अनूदित कविताएं

लक्ष्मीकांत मुकुल की हिंदी कविता का उर्दू में काव्यानुवाद झांसी से निकलने वाला रोजनामा " इंकशाफ" एवम "अदबी महाज़" में प्रकाशित



لکشمی کانت مکل ، بہار 
مترجم ..... سراج فاروقی ، پنویل
1
بسنت کا نیم شگفتہ پیار!

جب بھی لوٹتا ہوں پرانے شہر کی اس گلی میں یادوں کی دھند سے نکلتی ہے وہ ملاقات جب مارچ کی ایک بھینی صبح میں ملی تھیں تم تمہاری مسکراہٹ بھر رہی تھی میرا خالی پن تمہاری آنکھیں تلاش کر رہی تھیں
میرے چہرے میں بسنت کے پھول تمہارے لرزتے ہونٹوں سے نکل رہے تھے شیریں بول جن کی سرگم سے کھینچتا جار ہا تھا میں تمہاری طرف تمہیں دیکھا تھا اس دن ہاسٹل کی کھڑکی سے گل مہر کی پیچھے والی چھت پر والی پر چہک رہی تھیں
جیسے چہک رہی ہو باغ میں ننھی چڑیا تھرک رہا تھا" تر کل" کے پتوں سا
میرا تن من ...!
2.
نہ جانے کتنے بسنت گزر گئے
جب امتحان گاہ میں ساتھ بیٹھی تھیں تم ایکدم پاس پاس
کتنے قریب ہو گئے تھے ہم دونوں تمہاری سانسوں میں گھلتی تھیں میری
سانسیں
تمہاری دھڑکنوں میں میری دھڑکن تمہاری ہنسی میں میری ہنسی الجھ گئی تھی
ہوا میں اڑتے بال تمہارے اکثر ڈھانک لیتے تھے میرا جسم ہم کچھ وقت ساتھ چلے تھے، کچھ ہی قدم
اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی
کیسے تم کو یاد ہوگا میرا ساتھ یا کھوگ ء ہوں گی تم
روز بدلتے ہمراہی کے اس دور میں
میں تو ابھی تک وہیں کھڑا ہوں جہاں ملی تھیں تم جیسے ملتے ہیں دو کھیت بیچ کی پگڈنڈی پر آنکھیں گڑائے کبھی نہ کبھی واپسی ہوگی تمہاری
" بن تلسی" کی خوشبو لیے اس پگڈنڈی پر کبھی کسی بسنت میں؟



لکشمی كانت مکل صاحب ہندی کے معروف کوئی -
ہیں۔ وہ ہندی ادب میں کسان کوی“ کے بطور شہرت رکھتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ وہ کسان ، گاؤں کھیتی باڑی ، وہاں کے مسائل اور رسم و رواج کو اپنی نظم کا موضوع بناتے ہیں اور خوب
بناتے ہیں ۔ کچھ فلمیں اس ناچیز نے ہندی سے
اردو کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ فرمائیں ۔ ادارہ

ہندی نظم..... ...... لکشمی کانت مکل 
اردو ترجمہ....... سراج فاروقی، پنویل 


دیکھنا پھر سے شروع کیا دنیا کو 


اس بھری دوپہر میں
جب گیا تھا گھاس کاٹنے ندی کے کنارے 
تم بھی آئی تھیں اپنی بکریوں کے ساتھ 
شرم و حیا کی چادر اوڑھے 
 انجان، ان دیکھا اور نامعلوم 
 میں کیسے بندھ گیا تھا تیرے عشق میں

جب تم نے کہا کہ 
تمہیں تیرنا پسند ہے 
مجھے اچھی لگنے لگی ندی کی دھار 
دمیں ہلاتی چنچل مچھلیاں 
بالو، کنکر،اور کیچڑ سے بھرا 
ندی کا ساحل 


جب تم نے کہا
تمہیں اڑنا پسند ہے  نیل گگن میں
مانند پتنگ 
 مجھے اچھی لگنے لگی آسمان میں اڑنے والے پرندوں کی قطار 

 جب تم نے کہا
 تمہیں نیم کا دانتون پسند ہے؟
 مجھے میٹھی لگنے لگی اس کی پتیاں، نیمبولیاں اور چھاؤں گھنی 

جب تم نے کہا کہ 
تمہیں اوک سے نہیں، دونا سے 
پانی پینا اچھا لگتا ہے 
مجھے اچھی لگنے لگی 
خدا کی یہ سجی سنوری ساری دنیا 

جب تم نے کہا کہ 
تمہیں بارش میں بھیگنا پسند ہے 
مجھے اچھی لگنے لگی 
جولائی اور اگست کی رم جھم 
اور جنوری کی ٹوسار 

جب تم نے کہا کہ یہ بغیچہ 
سیلاب کے دنوں میں ناؤ کی طرح لگتا ہے 
مجھے اچھی لگنے لگی 
امرود کی مہک، بیر کی کھٹاس 

جب تم نے کہا کہ 
تمہیں پسند ہے، کھانا "تینی کا بھات" 
"بھتو ئے" کی ترکاری، "بتھوئے" کا ساگ 
مجھے اچھی لگنے لگیں فصلیں 
جسے اگاتے محنت کش مزدور 
جن کے پسینے سے سرسبز ہوتی یہ زمین 

تمہاری ہر پسند کا رنگ چڑھتا گیا میرے اندر 
تمہاری ہر چال، ہر تھرکن کے ساتھ 
ڈوبتے کھوتے سنجونے لگا جیون کی راہ 
"مکڑ تینا" کے تنے کی چھال پر 
ہنسیا کی نوک سے گودتا گیا تیرا نام اور مقام 
پریم کے پاگل پن میں کس طرح ہم 
ہوئے تھے ایک پل ہم آغوش 
لذت ہم آغوشی اور سانسوں کی 
تیز دھڑکنوں کے درمیان 
کھوگئے تھے 
بھول گئے تھے  
پوری پاکیزگی کے ساتھ 
دنیا و مافیہا سے بے خبر 
انسانیت کا دشمن رہا ہوگا 
وہ ہمارا پرکھا 
جس نے "کاک جوڑی" کو ایک دوسرے سے 
ہم آغوش دیکھ کر 
مانا تھا بد شگون 
جبکہ اس کے دو چونچ اور چار پیر آپس میں مل کر 
جیون کی نشیلی دھن پر  
زندگی کے نئے راگ کی تخلیق کرتے ہیں 
پوچھتا ہوں 
کیا ہوا تھا اس دن 
جب ہم ملے تھے پہلی بار 

آکاش سے ٹپک کر اس دھرتی پر آئے تھے 
کسی" اندر "کی شراپ سے متاثر 
جنتی انسان کی مانند نہیں 
"بغل گیر گاؤں" کی نرواسنی کا ملا تھا ساتھ 
پوچھتا ہوں "کل کل" کرتی ندی کی دھار سے 
ہوا کی زد پر مچلتے تاڑ کے پتوں سے 
پگڈنڈیوں کے کنارے 
چھپے اور پھُر سے اڑنے والے 
"گھاگھر" سے 
دور تک پیغام لے جاتی تیز رفتا ہواؤں سے
سب کا بار اٹھاتی دھرتی سے 
اوپر راکھ کی چادر اوڑھے آسمان سے 

سوال و جواب کے تبسم میں 
ہنسی اور خوشی سے بھر جاتی ہے دنیا 
ایسی ہی ایک مسکراہٹ نکلتی ہے 
میرے اندرون سے 
جب تم میرے بکھرے بالوں میں 
اپنی سبک اور مخروطی انگلیوں سے 
کنگھی کرتی ہو 
دیکھنا پھر سے شروع کیا میں نے اس دنیا کو 
واقعی یہ دنیا بہت ہی 
خوبصورت،حسین، دلکش اور پاکیزہ ہے  
تیرے میرے خیالوں.... ملن.... وعدوں 
اور ارادوں کی طرح -  



ہندی نظم

**********

ایک ہندی نظم

شاعر : شاعر کاشمی کانت مشکل

مترجم : سراج فاروقی ( پنویل )

لکشمی کانت مکل صاحب ہندی کے معروف کوئی ہیں ۔ وہ ہندی ادب میں کسان کوی“ کے بطور معروف ہیں۔ اس لیے کہ وہ کسان گاؤں کھیتی باڑی، گاؤں کے مسائل اور رسم و رواج کو اپنی موضوع بناتے ہیں۔ ان کی ایک نظم کا اردو تر جمہ پیش ہے۔ سراج فاروقی نظم کا
~~~~~
اب بھی لوٹتا ہوں پرانے شہر کی اس گلی میں کی یادوں کی دھند سے نکلتی ہے وہ ملاقات جب مارچ کی ایک بھینی صبح میں ملی تھیں تم تمہاری مسکراہٹ بھر رہی تھی میرا خالی پن تمہاری آنکھیں تلاش کر رہی تھیں میرے چہرے میں بسنت کے پھول تمہارے لرزتے ہونٹوں سے نکل رہے تھے شیریں کے

بول جن کی سرگم سے کھینچتا جا رہا تھا میں تمہاری طرف تمہیں دیکھا تو اس دن ہاسٹل کی کھڑکی سے گل مہر کے پیچھے والی چھت پر چہک رہی تھیں

جیسے چہک رہی ہو باغ میں سبھی چڑیا

تحرک رہا تھا ترکل کے پتوں سا

میرا تن من

लक्ष्मीकांत मुकुल के प्रथम कविता संकलन "लाल चोंच वाले पंछी" पर आधारित कुमार नयन, सुरेश कांटक, संतोष पटेल और जमुना बीनी के समीक्षात्मक मूल्यांकन

लक्ष्मीकांत मुकुल की कविताओं में मौन प्रतिरोध है – कुमार नयन आधुनिकता की अंधी दौड़ में अपनी मिट्टी, भाषा, बोली, त्वरा, अस्मिता, ग...